میٹرک کلاس کے دو بچوں کی خودکشی ۔ لمحہ فکریہ
نوروز حامد اور صبا بشیر
اسکول کی سیٹ پر بکھرا خون، اسکول یونیفارم میں لاشیں، کنپٹی اور ماتھے پر
گولیوں کے نشان
یا الہی، یہ تو نہ تھے ہمارے کھلونے، میٹرک کلاس کے بچوں کی خودکشی، کوئی کہہ
رہا ہے انڈین فلموں کا اثر تو کوئی کہہ رہا ہے کہ فحش ناولوں اور انٹرنیٹ کا اثر۔۔۔
مگر کب تک حقیقت کو جھٹلائیں گے؟ کب تک منہ چھپا کر ذمہ داری میڈیا اور فلموں
پر ڈالیں گے
ان بچوں نے جو کچھ کیا اس کے ذمہ دار ان کے والدین ہیں، ان کے قاتل کوئی اور
نہیں ان کے ماں باپ ہیں
میں انہیں برملا کیوں نہ کہوں کہ ، "سنبھال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں
کرتے ہو؟"
ہمیں اس بات پر سوچنا پڑیگا کیا وجہ تھی کہ بچوں نے اپنی بات اپنے والدین سے
شیئر نہیں کی؟ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے خود ہی سب کچھ فیصلہ کر لیا؟ اگر انہوں نے
گھر میں کچھ اس طرح کا ذکر کیا بھی تھا تو کیا وجہ تھی کہ والدین نے انہیں وہ
اعتماد نہیں دیا وہ بھروسہ نہیں دیا کہ انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔۔۔
معاشرہ خراب ہے، میڈیا خراب ہے، نوجوانوں کو جو دیگر ذرائع
سے مواد میسر ہے اس میں بہت کچھ خراب ہے۔۔
مگر کیا ان تک رسائی کو روکنا والدین کی ذمہ داری نہیں؟ کیا انہیں نہیں پتا کہ
ان کا بچہ کیا کر رہا ہے؟ کس سے ملتا ہے ؟ کن سرگرمیوں میں ملوث ہے؟
اگر نہیں پتا تو ان سے بڑا کوئی لاپرواہ نہیں! اور اگر پتا ہے تو ان سے بڑا
بےشرم اور ڈھیٹ کوئی نہیں!
اب یہ سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا، اس جنریشن گیپ کو ختم کرناہوگا!
والدین کو اپنی نوکری کی مصروفیات، اپنے موبائل/لیپ ٹاپ/ٹیبلٹ سے ،اپنی آپس کےلڑائی
جھگڑوں سے باہر نکل کر بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی پڑیگی۔
اور یہ تربیت، تشدد سے نہیں، پیار و محبت واور ان سے دوستی سے کرنی ہوگی۔
اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ان کو دوست بنانا ہوگا! اب یہ قدم
اٹھانا ہوگا!
والسلام!